جس کھیت سے دھقان کو — پروفیسر رحمت کریم بیگ
اے اہل وطن! اے جوانان چترال! اے مرد کوہستانی! آج ہم تمام چترالی جس مقام پر کھڑے ہیں ور جس طرح حالات کے سامنے بے بس ہیں، جس طرح ہماری کوئی شنوائی نہیں ہورہی، کوئی ہماری درخواست سننے کے لئے تیار نہیں، کوئی وزیر با تدبیر ہمیں ملاقات کا وقت دینے کے لئے تیار نہیں کیا ہم اسی طرح خاموش اور بے بس بیٹھے رہیں گے اگر ہم نے ایسا کیا تو انے والی نسل ہمیں کبھی معاف نہیں کریگی، ہم سب سوئے ہوئے ہیں، ہمارے نمایئندے بھی خراٹے لے رہے ہیں وہی خراٹے جس پر منو بھائی نے ایک کالم لکھا تھا کہ اسمبلی ہال میں اجلاس کے دوران خراٹے لینا منع ہے۔
وہ دن اور آج کا دن وہ کالم مجھے پریشان کئے ہوئے ہے اور یہ کالم بھی چترال کے ایم۔این۔اے کے بارے میں تھا جو رات جاگ کر اور دن کو اسمبلی ہال میں سو کر ہماری نمایئندگی کا حق ادا کر رہا تھا۔ ہمارے آبا ؤ اجداد نے اس ملک کو دوسروں سے بچانے کے لئے اسمار میں، گلگت میں، یارخون میں، لواری میں، ارندو میں اور بشگال میں جا کر جنگیں لڑیں اور اپنی ملکی حدود کا دفاع کیا یہ ساری قربانی انہوں نے اس لئے نہیں دیا کہ باہر کے لوگ اکر یہاں کے باشندوں کو بیدخل کریں ہم ان کی قربانیوں کو اگر ضائع کریں گے تو ہماری بڑی بے غیرتی ہوگی اور یہ شرم کی بات ہے، آپ لوگ زرا اپنی تاریخ کے صفحات دیکھ لو آپ کو بہت کچھ معلومات ملیں گی۔
جس طرف دیکھو لوگ اپنی زمین بیچ کر، اپنا گھر بیچ کر، اپنی آبائی جائے رہائش چھوڑ کر پرائی تہذیب کے لوگوں میں جاکر اپنی زبان کے ساتھ ثقافت بھی بھول رہے ہیں، ہماری نئی نسل کے جوان اپنی چترال کے جغرافیہ، تاریخ اور ثقافت سے بالکل بے خبر ہیں۔ ہمیں بیدار ی کی ضرورت ہے جاگو! اور جاگ کر قدرتی وسائل میں اپنا حصہ چھین کر حاصل کرو کہ مانگنے سے کوئی ہمیں دینے کے لئے تیار نہیں ہے،آپ دیکھ رہے ہیں کہ چترال کے اندر کتنے مسائل ہیں لیکن حکام بالا کو پرواہ ہی نہیں ہے کیونکہ چترال کی آبادی کم ہیں ان کا کلچر پٹھان سے بالکل مختلف ہے اور صوبہ کہ اندر ان کی حیثیت اقلیت کی ہے اور بزدل لوگ ہیں اس لئے اان کو بھول جاؤ یہ ہمارے لئے کوئی مسئلہ نہیں کھڑا کر سکتے، اگر اس نکتہ پر یقین نہیں تو جاکر کسی وزیر صاحب سے ملاقات، وزیر اعلی سے ملاقات کے لئے وقت مانگ کر انتظار کرو تمہیں زاتی تجربہ ہوجائیگا۔
چترال قدرتی وسائل سے مالا مال خطہ ہے چترال میں بیشمار وسائل ہیں ان کے بارے میں اگاہی اور استفادے کی ضرورت ہے باہر کے بڑے بڑے مگر مچھ آکر قابض ہوتے جارہے ہیں آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ چترال میں ۱۔پانی کی بہتات ہے ۲۔ معدنیات کی بہتات ہے ۳۔ سیاحت کے مواقع کی بہتات ہے۔جنگل کا رقبہ کم ہونے کے باوجود ہماری دیار کی لکڑی اعلی کوالٹی کی مانی جاتی ہے ۵۔ ہمارے ہاں بہترین پھل پیدا ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں سنگ مرمرکے بڑے بڑے پہاڑ کھڑے ہیں ۷۔ ہمارے پاس بہترین افرادی قوت موجود ہے ۸۔چترال کے طول و عرض میں امن و امان کا دور دورہ ہے اور یہ سب سے بڑا سرمایہ ہے اور اس کی بڑی قدر ہے ہمیں اس کی اہمیت کا ابھی احساس نہیں ہے ان کے علاوہ بھی ہمارے چترال کے اندر بہت کچھ ہے مگر ہم ابھی تک بیدار نہیں ہیں۔
میں نے اوپر سیاحت کی بات بھی کی اس کے بارے میں شومبرگ نام کی ایک فرنگی نے جہاں چترالیوں پر بیجا تنقید کی ہے مگر سچ اور حقیقت ان سے ایک موقع پر نہیں چھپائی جاسکی اور اس نے اپنی کتاب میں (۸۳۹۱) میں لکھا ہے کہ اگر چترال کے پاس کچھ بھی نہ ہو پھر بھی تریچ میر جیسے عظیم چوٹی کی یہاں موجودگی چترال کے لئے ایک مستقل سرمایہ ہے جس کا کوئی نعملبدل نہیں ہے، یہ ایک نہیں بلکہ پچاس اور تریچ میر کے پیچھے کھڑے ہیں جو سیاحت کے بغیر آپ کو چترال شہر سے نظر نہیں آ سکتیں، میرے پیار ے نو جوانو! اپنی تعلیم کے دوران چھٹیوں میں پہلے چترال کے کونے کونے تک سفر کر کے دیکھو قدرت کی اس حیران کن تخلیق کا مشاہدہ کرو اور پھر ان تجربات کی روشنی میں اس ملک کو ترقی دینے کے لئے اکھٹے ہوجاؤ، اس کے بارے میں باہر کے ملکوں میں معلومات بھیجو، اس کی ثقافت اور دیگر پہلوؤں کا زکر کرو ایک متحدہ پلیٹ فارم بناؤ اور چترال کے حقوق کے لئے جد و جہد کا اغاز کرو یہی وقت ہے اور یہ ٹھیک وقت ہے ورنہ موقع ہاتھ سے نکل جائیگا، او ر علاقوں سے نامی گرامی کفن چور یہاں داخل ہوں گے بد قماش بھی یہاں پہنچ کر قابض ہوجائیں گے، ہم پچھتایئں گے، تم پچھتاؤگے مگر فائدہ کچھ نہ ہوگا، چترال کے حقو ق کے لئے ہم نے مل کر لڑنا ہے اور ڈٹ کر لڑنا ہوگا۔