١٩٥٦ میں ایک پاکستانی فلم بنی تھی جس کا نام سرفروش تھا اس فلم کے مرکزی کردار سنتوش کمار اور صبیحہ خانم تھے۔ لو جی جناب فلم میں سنتوش کمار صبیحہ خانم کے گھر چوری کرنے آتے ہیں۔ چوری کے دوران فجر کی آذان ہوجاتی ہے اور وہ نماز پڑھنے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ صبیحہ خانم اُٹھ گئی تھیں اور حیرت سے یہ منظر دیکھ رہی تھیں بس اس ادا پر ان کو سنتوش سے پیار ہوجاتا ہے۔
بھائی پہلے زمانے کی فلموں میں ایسا ہی ہوتا تھا بہرحال صبیحہ خانم نے سنتوش سے پوچھا کہ یہ کیا؟ تو سنتوش نے وہ تاریخی ڈائیلاگ ادا کئے جس کو ہماری قوم نے پلّو میں باندھ لیا اور اسے اپنے نظام میں شامل کرلیا۔ وہ ڈائیلاگ تھا ” چوری میرا پیشہ ہے اور نماز میرا فرض “ اس ڈائیلاگ کو اتنی پزیرائی ملی کہ چور، رشوت خور، ذخیرہ اندوز ، بھتے خور ، ڈاکو سب اس پر پوری طرح عمل پیرا ہیں۔ 67 سال سے یہ ڈائیلاگ آج بھی زندہ ہے اگر کبھی مسجد کی طرف جاتے ہوئے کسی کرپٹ شخص کا ضمیر غنودگی کے عالم میں اسے ہلانے کی کوشش بھی کرتا ہے تو وہ یہ کہہ کر اپنےپ کو مطمئن کرلیتا ہے کہ…“چوری میرا پیشہ ہے اور نماز میرا فرض“…
.. CN report, 01 Nov 2023 Also read ‘ Segregation of Morality from Religion‘