اخبار میں ایک سیاسی رہنما کا بیان پڑھ کر یہ چند سطور لکھنے پر مجبور ہوا. بیان کچھ یوں تھا “ریشن بازار سے سیلابی ملبہ ہٹا کر عوام کو مشکلات سے نجات دلایا جائے”.. آخر ہم چترالی لوگ ہر کام کیلئے اخباری بیان اور پریس کانفرنس کیوں کرتے ہیں. کیا دوسرے طریقے موجود نہیں ہیں. مثلا اس کیس میں کیا یہ لیڈر کچھ لوگوں کو سآتھ لیکر علاقے کے اے سی یا ڈی سی کے پاس نہیں جا سکتا تھا. کیونکہ بلاخر کام تو انہوں نے ہی کرنا ہے یا کروانا ہے. اسی طرح کوئی بھی چھوٹا موٹا کام ہو مثلاً بازاروں میں آوارہ کتوں کو تلف کرنا ہو یا بازار کی صفائی مقصود ہو’ یا راستے سے پتھر اٹھانا ہو فوراً اخباری بیان جھاڑ دیا جاتا ہے بجایے متعلقہ حکام کے پاس جاکر موّثر طریقے سے اپنا مطالبہ پیش کرنے کے یا اس سے بھی بہتر وہ کام خود کرنے کا جیسا کہ مستوج کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت راستہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے.
اسی طرح کافی پرانی بات ہے کہ میں پشاور میں تھا اور دوست کے ساتھ مشرق اخبار پڑھ رہا تھا جس میں چترال کے حوالے سے خبر کچھ یوں تھی کہ چترال شہر کےمصافاتی دیہاتوں کے لوگوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پٹھان پاوندے دن کے وقت مردوں کی غیر موجودگی میں گھروں کے دروازے پر آ کے خواتین کو سودا کرا تے ہیں، حکومت ان پاوندوں کو روکے. میرا پٹھان دوست یہ پڑھ کر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گیا اور کہنے لگا کہ تم چترالی بھی عجیب لوگ ہو. تم اس کام کیلئے بھی حکومت کی طرف دیکھتے ہو. کیا یہ کام خود نہیں کر سکتے؟ ظاہری بات ہے مجھے شرمندگی اٹھانی پڑی. بوہوت ہو چکا’ ہم چترالی قوم کو اپنے میں موجود پٹھانوں اور افغانیوں سے سبق سیکھنا چاہئے اور اپنے بازووں پر انحصار کرنا چاہئے ‘ نہ کہ ہر کام کیلے .اخباری مطالبہ کا سہارا لینا چاہیے… چترال نیوز رپورٹ