کیا پاکستان میں احتجاج کے معنی ‘پرتشدد احتجاج’ بن کر رہ گیا ہے

مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ایک کالعدم جماعت احتجاج کے نام پہ پرتشدد مظاہرے کرتی ہے اور ریاست سے عملی جنگ چھیڑ دیتی ہے ۔
مسئلہ یہ بھی نہیں کہ پولیس جوابی کارروائی میں سیدھی گولیاں چلاتی ہیں ۔
مسئلے کے اندر ایک ایسا مسئلہ ہے جس کو آج تک ہم نے مسئلہ نہیں سمجھا اور سارے مسئلے اسی ایک مسئلے کے گرد گھومتے ہیں۔
بس وہ ایک مسئلہ حل ہو جائے تو اس قوم کے ہزاروں مسائل خودبخود حل ہو جائیں گے۔

مسئلہ یہ ہے کہ شدت پسندی ہمارے مزاج کا حصہ بن چکی ہے۔ شدت پسندی ہمارے معاشرے کی رگوں میں گھس چکی ہے ۔
ہم نے آج تک اپنی قوم کو یہی سکھایا ہے کہ احتجاج کا مطلب سڑکیں بلاک کر دینا ہے۔ احتجاج کا مطلب سرکاری اداروں پر حملہ آور ہونا ہے۔ احتجاج کا مطلب سیکورٹی فورسز پہ حملہ آور ہونا ہے ۔
ہم نے مہذب معاشرے کی طرح پرامن احتجاج کبھی دیکھا ہی نہیں ۔ ہم نے برسوں سے لوڈشیڈنگ اور مہنگائی کے نام پہ اسی طرح دنگا و فساد دیکھا یے۔
ہم نے نواز شریف کی سربراہی میں سپریم کورٹ پہ حملہ آور ہونا اور ججوں کو یرغمال ہوتے دیکھا ہے۔ ہم نے ڈاکٹر طاہر القادری کی اسلام آباد پہ چڑھائی دیکھی ہے ۔ ہم نے بینظیر کی شہادت پہ ملک کو آگ لگتے دیکھی ہے۔ ہم نے عمران خان کی سربراہی میں شہر بند ہوتے دیکھے ہیں۔
افسوس ہم نے ایسی کوئی مثال ہی پیش نہیں کی کہ ہمارے نوجوانوں کو احتجاج کا مطلب سمجھ ہو۔
ہم نے دین کو افہام کے بجائے جذبات سے جوڑا ہے۔ ہم نے نبی ۔ص۔ کے نعرے تو لگائے ہیں لیکن نبی کی سیاسی سوجھ بوجھ اور مفاہمتی سٹریٹجی بتانے سے گریز کیا ہے۔ ہم نے نہیں بتایا کہ آٹھ سال مدینہ کو معاشی طاقت بنانے کے بعد مکہ پہ حملہ کیا گیا ۔
ہم نے نہیں بتایا کہ تاریخ کے سب سے بڑے گستاخ اہلیان مکہ سے کبھی سفارتی تعلقات نہیں ٹوٹے۔
دراصل ہم نے قوم کو سفارت کاری سکھائی ہی نہیں ۔ ہم نے تو بس یہی سیکھا ہے کہ جو مخالفت کرے اس سے تعلق توڑ دو یا اس کا سر پھوڑ دو۔
ہم نے نبوت کا دعویٰ کرنے والے مسیلمہ کذاب کا مدینہ آنا اور نبی ۔ص۔ سے پرامن ماحول میں بات چیت کرنے کے بعد سلامت واپس جانا نہیں بتایا۔
ہم نے سوسائٹی میں رواداری کو جگہ نہیں دی ۔ ہم نے اپنے مدارس میں شدت پسندی کی ترویج کی۔ اور پھر جمعہ کے خطبات سے وہ زہر ہر گھر تک پہنچایا ۔

ہم نے رٹا خور ذاکرین و مناظرین اور نام نہاد تکے باز شعراء کو اہمیت اور مرکزیت دی، اور اقدار سے ناآشنا لوگوں کو محراب و منبر پر جگہ دی اور انکی بے دریغ واہ واہ کی ، اور یوں آج ہم خون کی ہولی کھیل رہے ہیں اور دنیا ہم پہ ہنس رہی ہے۔

اگر ہمیں انسانوں کی طرح جینا ہے تو معاشرے سے شدت پسندی کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ اس کےلیے کثیر الجہتی منصوبہ بندی درکار ہے۔
مختصراً یہ کہ ایک مہذب معاشرے کی تشکیل ضروری ہے جس میں ہمارے ذہنوں میں نفرت کے بجائے امن ہو،مذہبی ، سیاسی اور معاشرتی ہر لحاظ سے شدت پسندی کا خاتمہ کیا جائے اور ایک امن پسند معاشرہ تشکیل دیا جائے ۔

(Posted as received from Social media)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *