زیب قرطاس – شیر جہان ساحل
ریاست مدینہ یا پھر ویلفیئر اسٹیٹ عوام کو مفت خورنہیں بنایا کرتے بلکہ لوگوں کو ہنرمند بناتے ہیں اور انہیں محنت کرکے جینے کا سلیقہ سکھاتے ہیں اور پیغمبر اسلام بھی ایک سماجی کارکن کی حیثت سے اسلام سے قبل لوگوں کی اسی طرح کی مدد کیا کرتا تھا تاکہ معاشرہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکے اور یہی ایک لیڈر کی پہچان ہوتی ہے جو اپنے قوم کو خوددار بنانے کی لگن میں مگن رہتا/رہتی ہے۔
قومی پہچان یہ ہے ہم سب سے زیادہ خیرات و زکوٰۃ دینے والی ہجوم ہیں۔ پر برابر غور کریں تو سب سے زیادہ خیرات کھانے والے بھی ہم ہی ہیں، وہ سامنے اسلئے نہیں آتی کیونکہ ہماری تربیت جھوٹی طریقہ کار سے ہوئی اور ہم ریاست کی طرف سے تربیت یافتہ جھوٹے، ملاوٹ کرنے والے، فراڈی اور حق تلافی کرنے والے کھلاڑی بن کر سامنے آتے ہیں اور یہ چلہ پورا کرنے واسطے ہمیں چودہ سال تک لازمی جھوٹ پڑھایا جاتا ہے۔ ورنہ ہمیں یہ احساس تو کم از کم رہتا کہ خیرات و صدقات صرف حقدار کو ہی ملنی چائیے مگر ہم ہیں کہ مال مفت دل بے رحم! ۔۔۔۔۔ کیا کریں کہ موقع کی تلاش میں جو رہتے ہیں۔
ہم بات سرکاری لنگر خانوں کی ہو رہی ہے جہاں ہماری سرکار ایک نیکی کی لالچ میں نکما پن کے شکار ہجوم میں مفت خوری کی عادت ڈال رہی ہے جو اس مرض میں پہلے سے ہی مبتلا ہے!……. خان صاحب ہمیں احساس ہے کہ آپ کی سوچ نیک اور نیت صاف ہے کہ لنگر خانوں میں ضرورت مند اور حقدار ہی آئیں گے اور مسافر وہیں کھانے واسطے جائیں گے جو ضرورت مند اور بے بس ہو نگے مگر یہاں حالات یہ ہے کہ یہ ہجوم لنگر خانے میں کھانے کے بعد پلیٹ بھی ساتھ لے جاتی ہے، یہاں سبیل کی ٹینک کے ساتھ گلاس کو زنجیر سے بندھا جاتا ہے یہاں مسجد میں نمازی کا بعد از نماز نگے پیر گھر لوٹنا معمول ہے، تو حضور ایسے میں کہاں ممکن ہے کہ آپ کے لنگر خانے صحیح راہ میں استعمال ہوں!!، کیونکہ ہمیں ڈر ہے کہ کہیں یہ لنگر خانے بھی پہلے سے موجود مفت دسترخوانوں کی طرح نہ ہو جائیں جہاں حقدار سے زیادہ وہ لوگ کھایا کرتے ہیں جو پہلے ہی محنت کی روٹی سے بے خبر ہیں۔
جناب وزیراعظم عمران خان صاحب! آپ کی قیادت پہ اب بھی کروڑوں نوجوانوں کی نظریں ہیں کہ خان صاحب ہی اس ہجوم کو راہ راست پر لا کر قوم بنائیں گے اور خراب عادتوں کی انسداد کو ممکن بنائے گا مگر آپ ان نوجوانوں کی امنگوں کی ترجمانی سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ کیونکہ پچھلوں نے ہجوم کو ایک پلیٹ بریانی کے غلام بنا کر رکھے تھے اور اب وقت تھا کہ اس بریانی والی سوچ سے ان کو نکالنا ہے اور حلال کھانے و کمانے کی درس دینی ہے تاکہ بدکرداری سے چھٹکارا پانے میں مدد مل سکے۔ خدارا پلیز اپنے فیصلوں پر ایک مرتبہ نظر دوڑائیں۔