چترال نیوز رپورٹ .. یہ ایک انتہائی افسوس پر مبنی امر ہےکہ پاکستان میں ہر شخص کو اپنے مفاد کی فکر پڑ ی رہتی ہے،اداروں کی کسی کو پروا نہیں ہوتی .جب بھی کبھی کسی سرکاری منصوبہ کی بات کی جاتی ہے تو ذمہ داران پہلے یہ سوچتے ہیں کہ اسمیں ہمارے لیے کیا ہے. اسی طرح سیاست دان بھی جو منصوبہ منظور کراتے ہیں اسکو اس طرح سے پیش کرتے ہیں گویا وہ اپنے ذاتی پیسوں سے کام کرا رہے ہیں. سرکاری منصوبوں کے سنگ بنیاد رکھتے وقت یا افتتاح کرتے وقت انکے ذاتی نام کی تختی لگنا ضروری ہوتا ہے. مہذب ممالک میں ایسا نہیں ہوتا. وہاں عوام کے پیسوں سے کے جانے والے منصوبوں پر کسی شخص کاذاتی نام نہیں لکھا ہوتا ہے. زیادہ سےزیادہ اس شخس ک عہدہ لکھا ہوتا ہے. پاکستان میں تو گٹر کا ڈھکنا لگاتےوقت بھی تقریب منعقد کی جاتی ہے اور تقریب کے مہمان خصوصی کے نام کا بورڈ آویزاں کیا جاتا ہے
چترال میں جاپانیوں نے چھاونی پل بنایا’ نہ کوئی افتتاحی تقریب ہوئی نہ اختتامی’ نہ کسی کے نام کا بورڈ لگا مگر چترال کے عوام گواہ ہیں کہ انہوں نے انتہای مختصر وقت میں خاموشی سے منصوبہ مکمل کیا اورچلےگئے. اگر ہم پاکستانی یہ منصوبہ کرتے توو خدا جانے کتنے تقاریب ہوتے’ کون کون اسکا کریڈٹ لینے کی کوشش کرتے اور کس طرح ‘عزت مآب’ اور ‘عالی جناب’ کے نام کی تختی لگتی. اگر چہ چترال سمیت پورے پاکستان میں یہ رواج عام ہے تا ہم کچھ عرصہ پہلے ہسپتال میں ایک نیے شعبے کے افتتاحی بورڈ پر ذاتی نام کی بجایے ‘کمانڈنٹ چترال سکاؤٹس’ یعنی افسر کے عہدے کا ذکر تھا. ‘ جس کو دیکھ کر ہر زی شعور انسان کو خوشی ہوئی. پاکستان میں یہ ایک قانون بننا چاہیے کہ عوام کے پیسوں سے تعمیر کیے جانے والے منصوبوں پر کسی افسر یا سیاست دان چاہے وہ صدر یا وزیر اعظم ہی کیوں نہ ہو انکا ذاتی نام نہی لکھا ہونا چاہیے’ صرف عہدہ لکھا ہونا کافی ہے. اب پاکستان میں میڈیا کی بدولت شعور عام ہے اور ہمیں اس شعور کو بروئے کار لاتے ہوّیے اپنے معاملات میں تہذیب یافتہ ملکوں کی تقلید کرنی چاہیے