ہندوستان اور پاکستان کے پاس زندگی چھیننے کا ایک سے بڑھ کر ایک ذریعہ موجود ہے۔ توپ و تفنگ، تیر و تبر، شمشیر و سنا، طیارے ہرکارے اور بم بارود کیا ہے، جو ان کے پاس نہیں ہے۔
ستر برسوں کی جنگی مقابلہ بازیوں میں کبھی ایک نے برتری کا دعوی کیا تو کبھی دوسرے نے غلبے کے بھاشن دیے۔ فتح و نصرت اور عزم و ہمت کے کون کون سے حوالے ہیں، جو ان کے نصابوں، کہانیوں اور فلموں میں موجود نہیں ہیں۔
وقت پڑا تو معلوم ہوا کہ پون صدی سے یہ مقابلہ موت کی خیرات بانٹنے میں ہو رہا تھا۔ زندگی کے امتحان میں جب سانسوں کا سوال آیا تو بندہ بشر کو دینے کے لیے ان کے پاس نا تو آکسیجن سیلینڈر تھا اور نہ ہی وینٹی لیٹر۔
مشکل یہ ہے کہ انڈو۔پاک کے شفا خانوں میں بھاگتے دوڑتے تیمار دار اس حقیقت کو تسلیم نہیں کریں گے کہ بازار میں سانسوں کا بحران اس لیے پیدا ہوا ہے کہ یہاں زندگی کا بجٹ موت پر لگ گیا ہے۔ ۔
بہت بڑا سرمایہ خرچ کرکے اِن کی سانسیں صرف اس لیے چھینی گئی تھیں کہ موت کی افزائش کی جاسکے۔ اب بے بسی کی تصویر بن کر یہ سانسیں واپس مانگ رہے ہیں، مگر موت کے آستین میں پھونکی ہوئی سانس اگر واپس آتی بھی ہیں تو زندگی کو ساتھ لے جانے کے لیے آتی ہیں۔
بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ہر دوسرا شخص یہاں عقیدے کا محدب عدسہ جیب میں لیے پھرتا ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہے، جہاں گفتگو کی رہی سہی گنجائش بھی ختم ہو جاتی ہے۔ سیاسی دھڑے اور دیگر عوامی حلقے بھی غفلت کی دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں، مگر یہ وہ دائرہ ہے، جہاں کم سے کم کلام ہو سکتا ہے۔ ان میں بھی بیشتر وہ ہیں، جن کے پاس دلیلیں کم پڑ جائیں تو عقیدے کے بکتر بند مورچے میں پناہ لے لیتے ہیں۔ یہاں سے آگے ایک گہری چپ کے سوا آپ کے پاس کچھ نہیں رہ جاتا۔
زندگی اور عقیدے کا موازنہ ہو تو ہمیں عقیدہ ہی رکھنا ہوتا ہے اور زندگی کو تپتے صحرا میں تڑپنے کے لیے پیاسا چھوڑنا پڑتا ہے۔ عقیدے کا احترام ہم سب پر لازم ہے، مگر قوم اگر باشعور ہو تو اسے ریاست سے جیسے تیسے پوچھنا تو چاہیے کہ گاؤ ماتا کے لیے ایمبولینس سروس کی تجویز دینے والی )رکار Source نے یہی فکر مندی اپنی جنتا کے لیے کیوں نہیں دکھائی۔