زندگی کا ایک لمبا عرصہ یہاں خلیجی ممالک میں گزار دیا اور اس عرصے میں نہ کبھی کسی عاشقِ رسول سے ملاقات ہوئی اور نہ ہی کسی مجاہدِ ختم نبوت سے۔ نہ کوئی گدی نشین ملا اور نہ کوئی صاحبِ طریقت، رہبرِ شریعت، سگ ِمدینہ اور نہ ہی تعمیر و ترقی کا ہیرو۔
نہ کبھی دورانِ محرم اہلِ تشیع کے جلوس اور ریلیاں نکلتے دیکھیں اور نہ ہی کبھی صحابہ کرام کے یومِ وفات اور یوم پیدائش پر جلسے، جلوس اور بلاک ہوتی ہوئی سڑکیں۔
ناں کبھی میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے کے موقع پر جگہ جگہ ٹریفک جام دیکھا اور نہ ہی کبھی کسی پر گستاخی کا الزام لگا کر سر تن سے جدا کرنے والے مجاہد۔
یہاں دنیا کے ہر ملک و مذہب کے لوگ بستے ہیں۔ جسے شراب خانے جانا ہے جائے، جسے مندر جانا ہے جائے، جسے چرچ جانا ہے جائے، جسے مسجد جانا ہے جائے، جسے آٹھ تراویح پڑھنی ہیں پڑھے، جسے بیس پڑھنی ہے پڑھے اور جسے نہیں پڑھنی نہ پڑھے۔ اس کے باوجود بھی یہاں اسلام کو کوئی خطرہ نہیں۔
جس ملک کا میں رہنے والا ہوں وہاں مذہبی سیزن ختم ہوتے ہیں تو سیاسی سیزن شروع ہو جاتے ہیں۔
کبھی سیاسی پارٹیوں کے جلسے یا دھرنے تو کبھی مذہبی جماعتوں کے۔ کبھی ڈاکٹرز کا احتجاج تو کبھی اساتذہ کا۔ کبھی ربیع الاول کے جلوس تو کبھی حسینی ماتم۔
رمضان آیا تو تراویح پڑھنے کے بعد لاوڈ اسپیکر پر پورے محلے کو زبردستی ثواب پہنچانے کی جدوجہد۔ کبھی ناموس رسالت کی ریلیاں، کبھی تاجدار ختم نبوت کے دھرنے تو کبھی سیاستدانوں کا پروٹوکول۔
عورتیں رکشے میں بچے جنتی ہیں، مریض ایمبولینس میں تڑپ تڑپ کر جان دے دیتا ہے۔ چلو جی جو مر گیا اسے شہید بولو اور دفنا دو۔
اللہ کے بندو، پہلے خود پر تو اسلام نافذ کرو، پوری دنیا کے ٹھیکدار بعد میں بننا ، اور ہاں فی الحال ہم جیسے نام نہاد غازیوں، مجاہدوں اور عاشقوں کو دنیا ماسوائے نکمی، جھوٹی، فراڈی، بھکاری اور دغاباز قوم کے سوا کچھ بھی نہیں (posted as received in social media) سمجھتی